یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
سانحہ APS
آج کا سورج۔ آج کی صبح۔ آج کا دن کتنی آہوں سسکیوں چیخوں اور کتنے دکھ اور الم کے سائے ساتھ لیکر طلوع ہوا۔ کتنی ماؤں کی گودیں اُجڑ گئیں۔ باپ کا سہارا ٹُوٹ گیا۔ بہنوں سے بھائی چھن گئے اور بھائیوں کی کنڈھ خالی ہو گئی۔ سال کا آخری مہینہ۔ وہی دسمبر وہی یادیں۔ ننھے پھول اور کلیوں کی زندگی کی آخری سانسیں۔ مجھے کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ دسمبر کے ساتھ ہی سب کے دل کرب۔ دُکھ۔ رنج و الم اور غم کے آنسوؤں کے نزرانے قبول کرنے لگتے ہیں۔ پھر دل ہلا دینے مناظر نے دنیا کو تڑپا دیا رُلا دیا۔
تصور کریں بچے صبح صبح اُٹھے منگل کا دن سکول پہنچے۔ فرسٹ ایڈ ٹریننگ کا پیریڈ تھا سب آنکھیں گھڑی کی طرف لگی تھیں کب پیریڈ ختم ہو گا مگر یہ پیریڈ یہ گھڑی لیکچر ختم ہونے کی نہ تھی بلکہ اُن معصومین کے سانسوں کی آخری گھڑی تھی۔ شائد میرے اللہ کو 141 ننھی کلیاں اور پُھول پسند تھے جنہیں اس نے اپنے پاس بلا کر شہادت کا وہ مقام عطا کر دیا جو اللہ صرف اپنے محبوب بندوں کو عطا کرتا ہے یہیں سے اندازہ کر لیں یہ مٹی کتنی پاکیزہ ہے جس میں دُنیا کا سب سے مُعطر اور پاک خون شامل ہو گیا۔ اگ کوئی مجھ سے پوچھے تو میں کہوں گی اس جگہ با وضو ہو کر جائیں اور اس سانحہ پر گرنے والے آنسُو زمین پہ نہ گرنے دیں بلکہ اپنے دامن میں سجا لیں تاکہ روزِ محشر ان آنسوؤں کی مہک تمہاری بخشش کا بہانہ بن جائے کیونکہ وہ شہید زندہ و جاوید ہیں وہ دنیا میں آئے ہی امر ہونے کے لئے تھے وہ اپنا مقصد پورا کر گئے وہ اپنے خون سے امن کے چراغ جلانے کی بشارت دے گئے اور خُونِ جگر سے ایک نئی تاریخ رقم کر گئے۔ ایسی داستان ایک کہانی چھوڑ گئے جو رہتی دنیا تک ہر عام و خاص کی زبان کی زینت بنے گی۔ جب تک دُنیا قائم ہے اُن معصوموں کا ذکر بھی قائم رہے گا۔ اس سانحہ کو آٹھ سال گزر گئے مگر شُہدا کا خون آج بھی تازہ ہے۔ زخم آج بھی ہرے ہیں ان زخموں سے رسنے والا خون آج بھی ہر ایک کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے 16 دسمبر 2014 کی چُبھن قوم آج بھی محسوس کر رہی ہے جب سفاک بے رحم دہشتگردوں نے آرمی پبلک سکول پشاور میں گُھس کر اندھا دھند بلا امتیاز فائرنگ کرکے 141 ننھے طالب علموں کو شہید کر دیا جس کی جتنی بھی مزمت کی جائے کم ہے۔
آخر میں میری دعا ہے کہ اے میرے اور سب کے رب پالن ہار کسی کو اولاد کا دُکھ نہ دے اور اس دُکھی ماں کو صبر عطا کردے جو آج بھی اسفند کے انتظار میں دروازے کو تک رہی ہے برتھ ڈے کا کیک کاٹے اپنے لختِ جگر کا تصور میں انتظار کر رہی ہے۔ ننھی لائبہ کی ماں اپنی معصوم بیٹی کی بکھری پونیاں اکٹھی کر رہی ہے۔ باپ اپنے دل کے ٹُکڑے کا لاشہ اُٹھائے سوچ اور غم کی تصویر بنے بیٹھا ہے۔ بڑی بہن اپنے بھائی کی دُلہن کے لئے شگناں دی مہندی اور چُوڑیاں پکڑے انتظار کر رہی ہے۔
میں پیٹوں پھاڑ شگوفے کڈھے سو سو دُکھ اٹھائے۔
توڑن والا یار محمد ذرا ترس نہ کھائے